چند الجھی ہوئی سانسوں کی عطا ہوں کیا ہوں
میں چراغ تہ دامان صبا ہوں کیا ہوں
ہر نفس ہے مرا پروردۂ آغوش بلا
اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا ہوں کیا ہوں
مجھ پہ کھلتا ہی نہیں میرا ستم دیدہ وجود
کوئی پتھر ہوں کہ گم کردہ صدا ہوں کیا ہوں
دل میں ہوں اور زباں پر کبھی آتا بھی نہیں
میں کوئی بھولا ہوا حرف دعا ہوں کیا ہوں
میں سفر میں ہوں مگر سمت سفر کوئی نہیں
کیا میں خود اپنا ہی نقش کف پا ہوں کیا ہوں
میں نے دیکھا ہی نہیں جاگتی آنکھوں سے کبھی
کوئی عقدہ ہوں کہ خود عقدہ کشا ہوں کیا ہوں
پوچھتا ہے مرا پیراہن ہستی مجھ سے
میں قبا ہوں کہ فقط بند قبا ہوں کیا ہوں
دل کی اور میری زباں ایک ہے پھر بھی اخترؔ
لفظ و معنی کی پر اسرار فضا ہوں کیا ہوں
غزل
چند الجھی ہوئی سانسوں کی عطا ہوں کیا ہوں
اختر سعید خان