تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے
کنار چشم کئی خواب سر اٹھانے لگے
اختر رضا سلیمی
یہیں کہیں پہ کوئی شہر بس رہا تھا ابھی
تلاش کیجئے اس کا اگر نشاں کوئی ہے
اختر رضا سلیمی
آ کہ میں دیکھ لوں کھویا ہوا چہرہ اپنا
مجھ سے چھپ کر مری تصویر بنانے والے
اختر سعید خان
بہیں نہ آنکھ سے آنسو تو نغمگی بے سود
کھلیں نہ پھول تو رنگینئ فغاں کیا ہے
اختر سعید خان
بہت قریب رہی ہے یہ زندگی ہم سے
بہت عزیز سہی اعتبار کچھ بھی نہیں
اختر سعید خان
بند کر دے کوئی ماضی کا دریچہ مجھ پر
اب اس آئینے میں صورت نہیں دیکھی جاتی
اختر سعید خان
بند رکھوگے دریچے دل کے یارو کب تلک
کوئی دستک دے رہا ہے اٹھ کے دیکھو تو سہی
اختر سعید خان