تم سے چھٹ کر زندگی کا نقش پا ملتا نہیں
پھر رہا ہوں کو بہ کو اپنا پتا ملتا نہیں
میں ہوں یا پھرتا ہے کوئی اور میرے بھیس میں
کس سے پوچھوں کوئی صورت آشنا ملتا نہیں
نقش حیرت ہی نہ تھا پرسان حال غم بھی تھا
تم نے جو توڑا ہے اب وہ آئینا ملتا نہیں
ناامیدی حرف تہمت ہی سہی کیا کیجئے
تم قریب آتے نہیں ہو اور خدا ملتا نہیں
اس کے دل سے اپنا انداز تغافل پوچھیے
جس کے دل کو درد کا بھی آسرا ملتا نہیں
اک نہ اک رشتہ اسی دنیا سے تھا اپنا کبھی
سوچتا ہوں اور کوئی سلسلہ ملتا نہیں
کوئی سائے کی طرح چلتا ہے اخترؔ ساتھ ساتھ
دوستدار دل ہے لیکن برملا ملتا نہیں
غزل
تم سے چھٹ کر زندگی کا نقش پا ملتا نہیں
اختر سعید خان