سفر ہی شرط سفر ہے تو ختم کیا ہوگا
تمہارے گھر سے ادھر بھی یہ راستہ ہوگا
زمانہ سخت گراں خواب ہے مگر اے دل
پکار تو سہی کوئی تو جاگتا ہوگا
یہ بے سبب نہیں آئے ہیں آنکھ میں آنسو
خوشی کا لمحہ کوئی یاد آ گیا ہوگا
مرا فسانہ ہر اک دل کا ماجرا تو نہ تھا
سنا بھی ہوگا کسی نے تو کیا سنا ہوگا
پھر آج شام سے پیکار جان و تن میں ہے
پھر آج دل نے کسی کو بھلا دیا ہوگا
وداع کر مجھے اے زندگی گلے مل کے
پھر ایسا دوست نہ تجھ سے کبھی جدا ہوگا
میں خود سے دور ہوا جا رہا ہوں پھر اخترؔ
وہ پھر قریب سے ہو کر گزر گیا ہوگا
غزل
سفر ہی شرط سفر ہے تو ختم کیا ہوگا
اختر سعید خان