EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

چراغ لے کے اسے ڈھونڈنے چلا ہوں میں
جو آفتاب کی مانند اک اجالا ہے

اختر سعید خان




دشمن جاں ہی سہی ساتھ تو اک عمر کا ہے
دل سے اب درد کی رخصت نہیں دیکھی جاتی

اختر سعید خان




ہم نے مانا اک نہ اک دن لوٹ کے تو آ جائے گا
لیکن تجھ بن عمر جو گزری کون اسے لوٹائے گا

اختر سعید خان




ہر موج گلے لگ کے یہ کہتی ہے ٹھہر جاؤ
دریا کا اشارہ ہے کہ ہم پار اتر جائیں

اختر سعید خان




اسی موڑ پر ہم ہوئے تھے جدا
ملے ہیں تو دم بھر ٹھہر جائیے

اختر سعید خان




کون جینے کے لیے مرتا رہے
لو، سنبھالو اپنی دنیا ہم چلے

اختر سعید خان




کھلی آنکھوں نظر آتا نہیں کچھ
ہر اک سے پوچھتا ہوں وہ گیا کیا

اختر سعید خان