EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہم آئے روز نیا خواب دیکھتے ہیں مگر
یہ لوگ وہ نہیں جو خواب سے بہل جائیں

اختر رضا سلیمی




اک آگ ہماری منتظر ہے
اک آگ سے ہم نکل رہے ہیں

اختر رضا سلیمی




جسموں سے نکل رہے ہیں سائے
اور روشنی کو نگل رہے ہیں

اختر رضا سلیمی




خواب گلیوں میں پھر رہے تھے اور
لوگ اپنے گھروں میں سوئے تھے

اختر رضا سلیمی




پہلے تراشا کانچ سے اس نے مرا وجود
پھر شہر بھر کے ہاتھ میں پتھر تھما دیئے

اختر رضا سلیمی




سنا گیا ہے یہاں شہر بس رہا تھا کوئی
کہا گیا ہے یہاں پر مکان ہوتے تھے

اختر رضا سلیمی




تجھے خبر نہیں اس بات کی ابھی شاید
کہ تیرا ہو تو گیا ہوں مگر میں ہوں اس کا

اختر رضا سلیمی