EN हिंदी
نگاہیں منتظر ہیں کس کی دل کو جستجو کیا ہے | شیح شیری
nigahen muntazir hain kis ki dil ko justuju kya hai

غزل

نگاہیں منتظر ہیں کس کی دل کو جستجو کیا ہے

اختر سعید خان

;

نگاہیں منتظر ہیں کس کی دل کو جستجو کیا ہے
مجھے خود بھی نہیں معلوم میری آرزو کیا ہے

بدلتی جا رہی ہے کروٹوں پر کروٹیں دنیا
کسی صورت نہیں کھلتا جہان رنگ و بو کیا ہے

یہ سوچا دل کو نذر آرزو کرتے ہوئے ہم نے
نگاہ حسن خود آرا میں دل کی آبرو کیا ہے

مجھے اب دیکھتی ہے زندگی یوں بے نیازانہ
کہ جیسے پوچھتی ہو کون ہو تم جستجو کیا ہے

ہوا کرتی ہے دل سے گفتگو بے خواب راتوں میں
مگر کھلتا نہیں مجھ پر کہ اخترؔ گفتگو کیا ہے

میں ان آنکھوں کو کیا سمجھوں کہ اپنی خانہ ویرانی
جنہیں یہ بھی نہیں معلوم خون آرزو کیا ہے

کرن سورج کی کہتی ہے پھر آئے گی شب ہجراں
سحر ہوتی ہے اخترؔ سو رہو یہ ہاؤ ہو کیا ہے