EN हिंदी
دل کی راہیں ڈھونڈنے جب ہم چلے | شیح شیری
dil ki rahen DhunDne jab hum chale

غزل

دل کی راہیں ڈھونڈنے جب ہم چلے

اختر سعید خان

;

دل کی راہیں ڈھونڈنے جب ہم چلے
ہم سے آگے دیدۂ پر نم چلے

تیز جھونکا بھی ہے دل کو ناگوار
تم سے مس ہو کر ہوا کم کم چلے

تھی کبھی یوں قدر دل اس بزم میں
جیسے ہاتھوں ہاتھ جام جم چلے

ہائے وہ عارض اور اس پر چشم نم
گل پہ جیسے قطرۂ شبنم چلے

آمد سیلاب کا وقفہ تھا وہ
جس کو یہ جانا کہ آنسو تھم چلے

کہتے ہیں گردش میں ہیں سات آسماں
از سر نو قصۂ آدم چلے

کھل ہی جائے گی کبھی دل کی کلی
پھول برساتا ہوا موسم چلے

بے ستوں چھت کے تلے اس دھوپ میں
ڈھونڈنے کس کو یہ میرے غم چلے

کون جینے کے لیے مرتا رہے
لو، سنبھالو اپنی دنیا ہم چلے

کچھ تو ہو اہل نظر کو پاس درد
کچھ تو ذکر آبروئے غم چلے

کچھ ادھورے خواب آنکھوں میں لیے
ہم بھی اخترؔ درہم و برہم چلے