گزرنا ہے جی سے گزر جائیے
لیے دیدۂ تر کدھر جائیے
کھلے دل سے ملتا نہیں اب کوئی
اسے بھولنے کس کے گھر جائیے
سبک رو ہے موج غم دل ابھی
ابھی وقت ہے پار اتر جائیے
الٹ تو دیا پردۂ شب مگر
نہیں سوجھتا اب کدھر جائیے
علاج غم دل نہ صحرا نہ گھر
وہی ہو کا عالم جدھر جائیے
اسی موڑ پر ہم ہوئے تھے جدا
ملے ہیں تو دم بھر ٹھہر جائیے
کٹھن ہیں بہت ہجر کے مرحلے
تقاضا ہے ہنس کر گزر جائیے
اب اس در کی اخترؔ ہوا اور ہے
لیے اپنے شام و سحر جائیے
غزل
گزرنا ہے جی سے گزر جائیے
اختر سعید خان