تری جبیں پہ مری صبح کا ستارہ ہے
ترا وجود مری ذات کا اجالا ہے
حریف پرتو مہتاب ہے جمال ترا
کچھ اور لگتا ہے دل کش جو دور ہوتا ہے
مرے یقین کی معصومیت کو مت ٹوکو
مری نگاہ میں ہر نقش اک تماشا ہے
نظر تو آئے کوئی راہ زندگانی کی
تمام عالم امکاں غبار صحرا ہے
نہ آرزو سے کھلا ہے نہ جستجو سے کھلا
یہ حسن راز جو ہر شے میں کار فرما ہے
غم حیات رہا ہے ہمارا گہوارہ
یہ ہم سے پوچھ دل درد آشنا کیا ہے
چراغ لے کے اسے ڈھونڈنے چلا ہوں میں
جو آفتاب کی مانند اک اجالا ہے
جو ہم کو بھول گئے ان کو یاد کیوں کیجے
تمام رات کوئی چپکے چپکے کہتا ہے
کہاں کہاں لئے پھرتی ہے زندگی اب تک
میں اس جگہ ہوں جہاں دھوپ ہے نہ سایہ ہے
غزل
تری جبیں پہ مری صبح کا ستارہ ہے
اختر سعید خان