یاد آئیں جو ایام بہاراں تو کدھر جائیں
یہ تو کوئی چارہ نہیں سر پھوڑ کے مر جائیں
قدموں کے نشاں ہیں نہ کوئی میل کا پتھر
اس راہ سے اب جن کو گزرنا ہے گزر جائیں
رسمیں ہی بدل دی ہیں زمانے نے دلوں کی
کس وضع سے اس بزم میں اے دیدۂ تر جائیں
جاں دینے کے دعوے ہوں کہ پیمان وفا ہو
جی میں تو یہ آتا ہے کہ اب ہم بھی مکر جائیں
ہر موج گلے لگ کے یہ کہتی ہے ٹھہر جاؤ
دریا کا اشارہ ہے کہ ہم پار اتر جائیں
شیشے سے بھی نازک ہیں انہیں چھو کے نہ دیکھو
ایسا نہ ہو آنکھوں کے حسیں خواب بکھر جائیں
تاریک ہوئے جاتے ہیں بڑھتے ہوئے سائے
اخترؔ سے کہو شام ہوئی آپ بھی گھر جائیں
غزل
یاد آئیں جو ایام بہاراں تو کدھر جائیں
اختر سعید خان