کہیں کس سے ہمارا کھو گیا کیا
کسی کو کیا کہ ہم کو ہو گیا کیا
کھلی آنکھوں نظر آتا نہیں کچھ
ہر اک سے پوچھتا ہوں وو گیا کیا
مجھے ہر بات پر جھٹلا رہی ہے
یہ تجھ بن زندگی کو ہو گیا کیا
اداسی راہ کی کچھ کہہ رہی ہے
مسافر راستے میں کھو گیا کیا
یہ بستی اس قدر سنسان کب تھی
دل شوریدہ تھک کر سو گیا کیا
چمن آرائی تھی جس گل کا شیوہ
مری راہوں میں کانٹے بو گیا کیا
غزل
کہیں کس سے ہمارا کھو گیا کیا
اختر سعید خان