جرم ہستی کی سزا کیوں نہیں دیتے مجھ کو
لوگ جینے کی دعا کیوں نہیں دیتے مجھ کو
صرصر خوں کے تصور سے لرزتے کیوں ہو
خاک صحرا ہوں اڑا کیوں نہیں دیتے مجھ کو
کیوں تکلف ہے مرے نام پہ تعزیروں کا
میں برا ہوں تو بھلا کیوں نہیں دیتے مجھ کو
اب تمہارے لیے خود اپنا تماشائی ہوں
دوستو داد وفا کیوں نہیں دیتے مجھ کو
میں مسافر ہی سہی رات کی خاموشی کا
تم سحر ہو تو صدا کیوں نہیں دیتے مجھ کو
جنس بازار کی صورت ہوں جہاں میں اخترؔ
لوگ شیشوں میں سجا کیوں نہیں دیتے مجھ کو
غزل
جرم ہستی کی سزا کیوں نہیں دیتے مجھ کو
اختر امام رضوی