چاندنی کے ہاتھ بھی جب ہو گئے شل رات کو
اپنے سینے پر سنبھالا میں نے بوجھل رات کو
رات بھر چھایا رہا گھر کی فضا پر اک ہراس
دستکیں دیتا تھا در پر کوئی پاگل رات کو
چاندنی میں گھل گیا جب دل کی مایوسی کا زہر
میں نے خود کفنا دیا سایوں میں کومل رات کو
کرب کے لاوے ابلتے تھے سکوں کے آس پاس
اف وہ نیندیں وہ گراں خوابی کی دلدل رات کو
آج پھر دھندلا گئی اخترؔ مری شام فراق
سوچتا ہوں آج پھر برسیں گے بادل رات کو
غزل
چاندنی کے ہاتھ بھی جب ہو گئے شل رات کو
اختر امام رضوی