ہر بت یہاں ٹوٹے ہوئے پتھر کی طرح ہے
یہ شہر تو اجڑے ہوئے مندر کی طرح ہے
میں تشنۂ دیدار کہ جھونکا ہوں ہوا کا
وہ جھیل میں اترے ہوئے منظر کی طرح ہے
کم ظرف زمانے کی حقارت کا گلہ کیا
میں خوش ہوں مرا پیار سمندر کی طرح ہے
اس چرخ کی تقدیس کبھی رات کو دیکھو
یہ قبر پہ پھیلی ہوئی چادر کی طرح ہے
میں سنگ تہ آب کی صورت ہوں جہاں میں
اور وقت بھی سوئے ہوئے ساگر کی طرح ہے
روتے ہیں بگولے مرے دامن سے لپٹ کر
صحرا بھی طبیعت میں مرے گھر کی طرح ہے
اشعار مرے درد کی خیرات ہیں اخترؔ
اک شخص یہ کہتا تھا کہ غم زر کی طرح ہے
غزل
ہر بت یہاں ٹوٹے ہوئے پتھر کی طرح ہے
اختر امام رضوی