EN हिंदी
دنیا بھی پیش آئی بہت بے رخی کے ساتھ | شیح شیری
duniya bhi pesh aai bahut be-ruKHi ke sath

غزل

دنیا بھی پیش آئی بہت بے رخی کے ساتھ

اختر امام رضوی

;

دنیا بھی پیش آئی بہت بے رخی کے ساتھ
ہم نے بھی زخم کھائے بڑی سادگی کے ساتھ

اک مشت خاک آگ کا دریا لہو کی لہر
کیا کیا روایتیں ہیں یہاں آدمی کے ساتھ

اپنوں کی چاہتوں نے بھی کیا کیا دیئے فریب
روتے رہے لپٹ کے ہر اک اجنبی کے ساتھ

جنگل کی دھوپ چھاؤں ہی جنگل کا حسن ہے
سایوں کو بھی قبول کرو روشنی کے ساتھ

تم راستے کی گرد نہ ہو جاؤ تو کہو
دو چار گام چل کے تو دیکھو کسی کے ساتھ

کوئی دھواں اٹھا نہ کوئی روشنی ہوئی
جلتی رہی حیات بڑی خامشی کے ساتھ