شاید اپنا ہی تعاقب ہے مجھے صدیوں سے
شاید اپنا ہی تصور لئے جاتا ہے مجھے
اختر ہوشیارپوری
ٹکرا کے سر کو اپنا لہو آپ چاٹتے
اچھا ہوا کہ دشت میں دیوار و در نہ تھے
اختر ہوشیارپوری
تمام حرف مرے لب پہ آ کے جم سے گئے
نہ جانے میں کہا کیا اور اس نے سمجھا کیا
اختر ہوشیارپوری
تھی تتلیوں کے تعاقب میں زندگی میری
وہ شہر کیا ہوا جس کی تھی ہر گلی میری
اختر ہوشیارپوری
وہی مٹی ہے سب کے چہروں پر
آئنہ سب سے با خبر ہے یہاں
اختر ہوشیارپوری
وہ بھی سچ کہتے ہیں اخترؔ لوگ بیگانے ہوئے
ہم بھی سچے ہیں کہ دنیا کا چلن ایسا نہ تھا
اختر ہوشیارپوری
وہ کم سخن تھا مگر ایسا کم سخن بھی نہ تھا
کہ سچ ہی بولتا تھا جب بھی بولتا تھا بہت
اختر ہوشیارپوری