EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

شاید اپنا ہی تعاقب ہے مجھے صدیوں سے
شاید اپنا ہی تصور لئے جاتا ہے مجھے

اختر ہوشیارپوری




ٹکرا کے سر کو اپنا لہو آپ چاٹتے
اچھا ہوا کہ دشت میں دیوار و در نہ تھے

اختر ہوشیارپوری




تمام حرف مرے لب پہ آ کے جم سے گئے
نہ جانے میں کہا کیا اور اس نے سمجھا کیا

اختر ہوشیارپوری




تھی تتلیوں کے تعاقب میں زندگی میری
وہ شہر کیا ہوا جس کی تھی ہر گلی میری

اختر ہوشیارپوری




وہی مٹی ہے سب کے چہروں پر
آئنہ سب سے با خبر ہے یہاں

اختر ہوشیارپوری




وہ بھی سچ کہتے ہیں اخترؔ لوگ بیگانے ہوئے
ہم بھی سچے ہیں کہ دنیا کا چلن ایسا نہ تھا

اختر ہوشیارپوری




وہ کم سخن تھا مگر ایسا کم سخن بھی نہ تھا
کہ سچ ہی بولتا تھا جب بھی بولتا تھا بہت

اختر ہوشیارپوری