EN हिंदी
ہر ایک پھول کے دامن میں خار کیسا ہے | شیح شیری
har ek phul ke daman mein Khaar kaisa hai

غزل

ہر ایک پھول کے دامن میں خار کیسا ہے

ساحر ہوشیار پوری

;

ہر ایک پھول کے دامن میں خار کیسا ہے
بتائے کون کہ رنگ بہار کیسا ہے

وہ سامنے تھے تو دل کو سکوں نہ تھا حاصل
چلے گئے ہیں تو اب بے قرار کیسا ہے

یقین تھا کہ نہ آئے گا مجھ سے ملنے کوئی
تو پھر یہ دل کو مرے انتظار کیسا ہے

اگر کسی نے تمہارا بھی دل نہیں توڑا
تو آنسوؤں کا رواں آبشار کیسا ہے

مجھے خبر ہے کہ ہے بے وفا بھی ظالم بھی
مگر وفا کا تری اعتبار کیسا ہے

ترے مکان کی دیوار پر جو ہے چسپاں
تلاش کس کی ہے یہ اشتہار کیسا ہے

یہ کس کے خون سے ہے دامن چمن رنگیں
یہ سرخ پھول سر شاخ دار کیسا ہے

اب ان کی برق نظر کو دکھاؤ آئینہ
وہ پوچھتے ہیں دل بے قرار کیسا ہے

مری خبر تو کسی کو نہیں مگر اخترؔ
زمانہ اپنے لئے ہوشیار کیسا ہے