خزاں میں آگ لگاؤ بہار کے دن ہیں
نئے شگوفے کھلاؤ بہار کے دن ہیں
الٹ دو تختہ خزاں کی تباہ کاری کا
بساط عیش بچھاؤ بہار کے دن ہیں
عذار گل کی دہک سے جلا کے کانٹوں کو
لگی دلوں کی بجھاؤ بہار کے دن ہیں
ملا کے قطرۂ شبنم میں رنگ و نکہت گل
کوئی شراب بناؤ بہار کے دن ہیں
بھرے کٹورے چمن کے یہ درس دیتے ہیں
چھلکتے جام لڑھاؤ بہار کے دن ہیں
اب احتیاط پسندی ہے سعئ نا مشکور
متاع ضبط لٹاؤ بہار کے دن ہیں
شرار گل سے زمانے میں شعلے بھڑکا دو
حسین فتنے جگاؤ بہار کے دن ہیں
جنون شوق کی بے اعتدالیوں کے خلاف
کوئی دلیل نہ لاؤ بہار کے دن ہیں
پرانی شمعیں بجھا دیں صبا کے جھونکوں نے
نئے چراغ جلاؤ بہار کے دن ہیں
لچک رہی ہے وفور ثمر سے شاخ حیات
یہ بار ہنس کے اٹھاؤ بہار کے دن ہیں
جناب اختر جاں دادۂ رخ گل کو
امام وقت بناؤ بہار کے دن ہیں
غزل
خزاں میں آگ لگاؤ بہار کے دن ہیں
اختر انصاری