EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کبھی خوشبو کبھی سایہ کبھی پیکر بن کر
سبھی ہجروں میں وصالوں میں مرے پاس رہو

اکبر علی خان عرشی زادہ




لاؤ اک لمحے کو اپنے آپ میں ڈوب کے دیکھ آؤں
خود مجھ میں ہی میرا خدا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

اکبر علی خان عرشی زادہ




لوٹا جو اس نے مجھ کو تو آباد بھی کیا
اک شخص رہزنی میں بھی رہبر لگا مجھے

اکبر علی خان عرشی زادہ




میں تجھ کو بھول نہ پاؤں یہی سزا ہے مری
میں اپنے آپ سے لیتا ہوں انتقام اپنا

اکبر علی خان عرشی زادہ




میرے تصور نے بخشی ہے تنہائی کو بھی اک محفل
تو محفل محفل تنہا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

اکبر علی خان عرشی زادہ




سر خار سے سر سنگ سے جو ہے میرا جسم لہو لہو
کبھی تو بھی تو مرے سنگ میل کبھی رنگ میرے سفر کے دیکھ

اکبر علی خان عرشی زادہ




صراحئ مئے ناب و سفینہ ہائے غزل
یہ حرف‌ حسن مقدر لکھا ہے کس کے لیے

اکبر علی خان عرشی زادہ