سزا ہے کس کے لیے اور جزا ہے کس کے لیے
پتا نہیں در زنداں کھلا ہے کس کے لیے
صراحئ مئے ناب و سفینہ ہائے غزل
یہ حرف حسن مقدر لکھا ہے کس کے لیے
فقط شنید ہے اب تک جو دید ہو تو بتائیں
بہار سبزہ و رقص صبا ہے کس کے لیے
نہیں جو اپنے لیے باوجود ذوق نظر
صحیفۂ رخ و رنگ حنا ہے کس کے لیے
مٹا سکے نہ اگر تشنہ کامیاں میری
کہو کہ خوبئ آب و ہوا ہے کس کے لیے
تمہیں نہیں ہو اگر آج گوش بر آواز
یہ میری فکر یہ میری نوا ہے کس کے لیے
یہ اک سوال ہے شکوہ نہیں گلہ بھی نہیں
مرے خدا ترا لطف و عطا ہے کس کے لیے
غزل
سزا ہے کس کے لیے اور جزا ہے کس کے لیے
اکبر علی خان عرشی زادہ