کیا ہے میں نے تعاقب وہ صبح و شام اپنا
میں دشت دشت پکارا کیا ہوں نام اپنا
میں تجھ کو بھول نہ پاؤں یہی سزا ہے مری
میں اپنے آپ سے لیتا ہوں انتقام اپنا
یہ نسبتیں کبھی ذاتی کبھی صفاتی ہیں
ہر ایک شکل میں لازم ہے احترام اپنا
اسی تلاش میں پہونچا ہوں عشق تک تیرے
کہ اس حوالے سے پا جاؤں میں دوام اپنا
نہ جانے خود سے ہے یہ گفتگو کہ تجھ سے ہے
نہ جانے کس سے مخاطب ہے یہ کلام اپنا
غزل
کیا ہے میں نے تعاقب وہ صبح و شام اپنا
اکبر علی خان عرشی زادہ