کبھی زخم زخم نکھر کے دیکھ کبھی داغ داغ سنور کے دیکھ
کبھی تو بھی ٹوٹ مری طرح کبھی ریزہ ریزہ بکھر کے دیکھ
سر خار سے سر سنگ سے جو ہے میرا جسم لہو لہو
کبھی تو بھی تو مرے سنگ میل کبھی رنگ میرے سفر کے دیکھ
اسی کھیل سے کبھی پائے گا تو گداز قلب کی نعمتیں
کبھی روٹھ جا کبھی من کے دیکھ کبھی جیت جا کبھی ہر کے دیکھ
یہ پڑی ہیں صدیوں سے کس لیے ترے میرے بیچ جدائیاں
کبھی اپنے گھر تو مجھے بلا کبھی راستے مرے گھر کے دیکھ
تجھے آئینے میں نہ مل سکے گا تری اداؤں کا بانکپن
اگر اپنا حسن ہے دیکھنا تو مری غزل میں اتر کے دیکھ
وہی میرا درد رواں دواں وہی تیرا حسن جواں جواں
کبھی میرؔ و دردؔ کے بیت پڑھ کبھی شعر داغؔ و جگرؔ کے دیکھ
غزل
کبھی زخم زخم نکھر کے دیکھ کبھی داغ داغ سنور کے دیکھ
اکبر علی خان عرشی زادہ