EN हिंदी
سناٹا طوفاں سے سوا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے | شیح شیری
sannaTa tufan se siwa ho ye bhi to ho sakta hai

غزل

سناٹا طوفاں سے سوا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

اکبر علی خان عرشی زادہ

;

سناٹا طوفاں سے سوا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
یہ کچھ اور بڑا دھوکا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

ضبط جنوں سے اندازوں پر در تو بند نہیں ہوتے
تو مجھ سے بڑھ کر رسوا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

رہنے دے یہ حرف تسلی میری ہمت پست نہ کر
ناکامی ہی میں رستا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

ڈھونڈنے والا ڈھونڈ رہا ہے اور انداز جفاؤں کے
مجھ کو وفا کا زخم لگا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

لاؤ اک لمحے کو اپنے آپ میں ڈوب کے دیکھ آؤں
خود مجھ میں ہی میرا خدا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

مجھ کو تو یہ اعزاز بہت ہے لیکن تیری تمنا نے
میرے لبوں سے کام لیا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

آخر اپنے قدموں کو کیوں ہم ملزم ٹھہراتے ہیں
راہوں نے منہ موڑ لیا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

میرے تصور نے بخشی ہے تنہائی کو بھی اک محفل
تو محفل محفل تنہا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے