EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تمہیں نہیں ہو اگر آج گوش بر آواز
یہ میری فکر یہ میری نوا ہے کس کے لیے

اکبر علی خان عرشی زادہ




وہی گماں ہے جو اس مہرباں سے پہلے تھا
وہیں سے پھر یہ سفر ہے جہاں سے پہلے تھا

اکبر علی خان عرشی زادہ




وہی مایوسی کا عالم وہی نومیدی کا رنگ
زندگی بھی کسی مفلس کی دعا ہو جیسے

اکبر علی خان عرشی زادہ




وہ ایک لمحہ مجھے کیوں ستا رہا ہے کہ جو
نہیں کے بعد مگر اس کی ہاں سے پہلے تھا

اکبر علی خان عرشی زادہ




وہ سن رہا ہے مری بے زبانیوں کی زباں
جو حرف و صوت و صدا و زباں سے پہلے تھا

اکبر علی خان عرشی زادہ




یاد بن کے پہلو میں موسموں کے بستر پر
کروٹیں بدلتی ہیں مہربانیاں ساری

اکبر علی خان عرشی زادہ




یہ اک سوال ہے شکوہ نہیں گلہ بھی نہیں
مرے خدا ترا لطف و عطا ہے کس کے لیے

اکبر علی خان عرشی زادہ