تمہیں نہیں ہو اگر آج گوش بر آواز
یہ میری فکر یہ میری نوا ہے کس کے لیے
اکبر علی خان عرشی زادہ
وہی گماں ہے جو اس مہرباں سے پہلے تھا
وہیں سے پھر یہ سفر ہے جہاں سے پہلے تھا
اکبر علی خان عرشی زادہ
وہی مایوسی کا عالم وہی نومیدی کا رنگ
زندگی بھی کسی مفلس کی دعا ہو جیسے
اکبر علی خان عرشی زادہ
وہ ایک لمحہ مجھے کیوں ستا رہا ہے کہ جو
نہیں کے بعد مگر اس کی ہاں سے پہلے تھا
اکبر علی خان عرشی زادہ
وہ سن رہا ہے مری بے زبانیوں کی زباں
جو حرف و صوت و صدا و زباں سے پہلے تھا
اکبر علی خان عرشی زادہ
یاد بن کے پہلو میں موسموں کے بستر پر
کروٹیں بدلتی ہیں مہربانیاں ساری
اکبر علی خان عرشی زادہ
یہ اک سوال ہے شکوہ نہیں گلہ بھی نہیں
مرے خدا ترا لطف و عطا ہے کس کے لیے
اکبر علی خان عرشی زادہ