EN हिंदी
تیرا خیال جاں کے برابر لگا مجھے | شیح شیری
tera KHayal jaan ke barabar laga mujhe

غزل

تیرا خیال جاں کے برابر لگا مجھے

اکبر علی خان عرشی زادہ

;

تیرا خیال جاں کے برابر لگا مجھے
تو میری زندگی ہے یہ اکثر لگا مجھے

دریا ترے جمال کے ہیں کتنے اس میں گم
سوچا تو اپنا دل بھی سمندر لگا مجھے

لوٹا جو اس نے مجھ کو تو آباد بھی کیا
اک شخص رہزنی میں بھی رہبر لگا مجھے

کیا بات تھی کہ قصۂ فرہاد کوہ کن
اپنی ہی داستان‌‌ سراسر لگا مجھے

آمد نے تیری کر دیا آباد اس طرح
خود اپنا پہلی بار مرا گھر لگا مجھے

آیا ہے کون میری عیادت کے واسطے
کیوں اپنا حال پہلے سے بہتر لگا مجھے

کیا یاد آ گیا مجھے کیوں یاد آ گیا
غنچہ کھلا جو شاخ پہ پتھر لگا مجھے