کھل کے برسنا اور برس کر پھر کھل جانا دیکھا ہے
ہم سے پوچھو!! ان آنکھوں کا ایک زمانہ دیکھا ہے
تم نے کیسے مان لیا وہ تھک کر بیٹھ گیا ہوگا
تم نے تو خود اپنی آنکھوں سے وہ دیوانا دیکھا ہے
منزل تک پہنچیں کہ نہ پہنچیں راہ مگر اپنی ہوگی
تو رہنے دے واعظ تیرا راہ بتانا دیکھا ہے
دھول کا اک ذرہ نہ اڑے آواز کرے پرچھائیں بھی
موت بھی آ کر مرتی نہیں تھی وہ ویرانہ دیکھا ہے
گلشن سے ہم سیکھ نہ پائے وقتی خوشیوں کو جینا
جبکہ ہم نے فصل گل کا آنا جانا دیکھا ہے
دل تو سادہ ہے تیری ہر بات کو سچا مانتا ہے
عقل نے باتیں کرتے تیرا آنکھ چرانا دیکھا ہے
لفظ دوا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ پرہیز بھی ہے
لفظ کے باعث پل میں کھونا پل میں پانا دیکھا ہے
غزل
کھل کے برسنا اور برس کر پھر کھل جانا دیکھا ہے
اجمل صدیقی