EN हिंदी
زندگی روز بناتی ہے بہانے کیا کیا | شیح شیری
zindagi roz banati hai bahane kya kya

غزل

زندگی روز بناتی ہے بہانے کیا کیا

اجمل صدیقی

;

زندگی روز بناتی ہے بہانے کیا کیا
جانے رہتے ہیں ابھی کھیل دکھانے کیا کیا

صرف آنکھوں کی نمی ہی تو نہیں مظہر غم
کچھ تبسم بھی جتا دیتے ہیں جانے کیا کیا

کھٹکیں اس آنکھ میں تو دھڑکیں کبھی اس دل میں
در بدر ہو کے بھی اپنے ہیں ٹھکانے کیا کیا

بول پڑتا تو مری بات مری ہی رہتی
خامشی نے ہیں دئے سب کو فسانے کیا کیا

شہر میں رنگ جما گاؤں میں فصلیں اجڑیں
حشر اٹھایا بنا موسم کی گھٹا نے کیا کیا

خواب و امید کا حق، آہ کا فریاد کا حق
تجھ پہ وار آئے ہیں یہ تیرے دوانے کیا کیا