اتراتا گریباں پر تھا بہت، رہ عشق میں کب کا چاک ہوا
وہ قصۂ آزادانہ روی، اس زلف کے ہاتھوں پاک ہوا
کیا کیا نہ پڑھا اس مکتب میں، کتنے ہی ہنر سیکھے ہیں یہاں
اظہار کبھی آنکھوں سے کیا کبھی حد سے سوا بے باک ہوا
جس دن سے گیا وہ جان غزل ہر مصرعے کی صورت بگڑی
ہر لفظ پریشاں دکھتا ہے، اس درجہ ورق نمناک ہوا
خوش رہیو سن اے باد صبا کہیں اور تو اپنے ناز دکھا
تو جس کے بال اڑاتی تھی وہ شخص تو کب کا خاک ہوا
غزل
اتراتا گریباں پر تھا بہت، رہ عشق میں کب کا چاک ہوا
اجمل صدیقی