نہ نظر سے کوئی گزر سکا نہ ہی دل سے ملبہ ہٹا سکا
نہ وہ در بچا نہ وہ گھر بچا تیرے بعد کوئی نہ آ سکا
نہ وہ حس کسی میں نہ تاب ہے مرا غم تو خیر اٹھائے کون
وہ جو مصرعہ غم کا تھا ترجماں کوئی اس کو بھی نہ اٹھا سکا
کبھی خوف تھا ترے ہجر کا کبھی آرزو کے زوال کا
رہا ہجر و وصل کے درمیاں تجھے کھو سکا نہ میں پا سکا
مرے دل میں تخم یقین رکھ دے لچک تو شاخ مزاج کو
وہ چمن کھلا مرے باغباں جو چمن کوئی نہ کھلا سکا
مرے ساتھ سوئے جنون چل مرے زخم کھا مرا رقص کر
مرے شعر پڑھ کے ملے گا کیا پتا پڑھ کے گھر کوئی پا سکا؟
جو لکھو عبارت عشق تم تو انا کا کوئی نہ پیچ ہو
جو لب دوات پہ جھک گیا وہ قلم ہی نقش بنا سکا
غزل
نہ نظر سے کوئی گزر سکا نہ ہی دل سے ملبہ ہٹا سکا
اجمل صدیقی