خط جو تیرے نام لکھا، تکیے کے نیچے رکھتا ہوں
جانے کس امید پہ یہ تعویذ دبا کے رکھتا ہوں
تاکہ اک اک لفظ مرے لہجے میں تجھ سے بات کرے
خط کے ہر ہر لفظ کو خط پر خوب پڑھا کے رکھتا ہوں
آس پہ تیری بکھرا دیتا ہوں کمرے کی سب چیزیں
آس بکھرنے پر سب چیزیں خود ہی اٹھا کے رکھتا ہوں
ایک ذرا سا درد ملا اور کاغذ کالے کر ڈالے
ایک ذرا سے ہجر پہ اک ہنگامہ مچا کے رکھتا ہوں
عنبر، مشکیں، روح بہاراں جان فزا و موج بہشت
اک تیری نسبت سے کیا کیا نام صبا کے رکھتا ہوں
غزل
خط جو تیرے نام لکھا، تکیے کے نیچے رکھتا ہوں
اجمل صدیقی