الگ الگ تاثیریں ان کی، اشکوں کے جو دھارے ہیں
عشق میں ٹپکیں تو ہیں موتی، نفرت میں انگارے ہیں
تم سے مل کر کھل اٹھتا تھا، تم سے چھوٹ کے پھیکا ہوں
اے رنگریز مرے چہرے کے سارے رنگ تمہارے ہیں
گرمی کی لو میں تپنے کے بعد ہی پانی کا ہے مزہ
تجھ کو جیتنا آساں تھا، ہم جان کے تجھ کو ہارے ہیں
اے پروائی میری خوشبو اس چوکھٹ کے دم سے ہے
تو بھی گزر کے دیکھ جہاں میں نے کچھ لمحے گزارے ہیں
منہ سے بتاؤ یا نہ بتاؤ تم ہم کو دل کی باتیں
جان من یہ نین تمہارے، یہ جاسوس ہمارے ہیں
ایسی بات ملن میں کب ہوگی جیسی اس پل میں ہے
سب کے بیچ میں میں ہوں، وہ ہے اور خاموش اشارے ہیں
تیرے منہ پر تیری ہم نے کبھی نہ کی تعریف ذرا
لکھنے بیٹھے تو کاغذ پر رکھ دئے چاند ستارے ہیں
غزل
الگ الگ تاثیریں ان کی، اشکوں کے جو دھارے ہیں
اجمل صدیقی