وقت سفر قریب ہے بستر سمیٹ لوں
بکھرا ہوا حیات کا دفتر سمیٹ لوں
پھر جانے ہم ملیں نہ ملیں اک ذرا رکو
میں دل کے آئینے میں یہ منظر سمیٹ لوں
یاروں نے جو سلوک کیا اس کا کیا گلا
پھینکے ہیں دوستوں نے جو پتھر سمیٹ لوں
کل جانے کیسے ہوں گے کہاں ہوں گےگھر کے لوگ
آنکھوں میں ایک بار بھرا گھر سمیٹ لوں
تار نظر بھی غم کی تمازت سے خشک ہے
وہ پیاس ہے ملے تو سمندر سمیٹ لوں
اجملؔ بھڑک رہی ہے زمانے میں جتنی آگ
جی چاہتا ہے سینے کے اندر سمیٹ لوں
غزل
وقت سفر قریب ہے بستر سمیٹ لوں
اجمل اجملی