بھرے بازار میں بیٹھا ہوں لیے جنس وجود
شرط یہ ہے کہ مری خاک کی قیمت دی جائے
سالم سلیم
بھرے بازار میں بیٹھا ہوں لیے جنس وجود
شرط یہ ہے کہ مری خاک کی قیمت دی جائے
سالم سلیم
بجھا رکھے ہیں یہ کس نے سبھی چراغ ہوس
ذرا سا جھانک کے دیکھیں کہیں ہوا ہی نہ ہو
سالم سلیم
چراغ عشق بدن سے لگا تھا کچھ ایسا
میں بجھ کے رہ گیا اس کو ہوا بنانے میں
سالم سلیم
چراغ عشق بدن سے لگا تھا کچھ ایسا
میں بجھ کے رہ گیا اس کو ہوا بنانے میں
سالم سلیم
چٹخ کے ٹوٹ گئی ہے تو بن گئی آواز
جو میرے سینہ میں اک روز خامشی ہوئی تھی
سالم سلیم
ہجر کے دن تو ہوئے ختم بڑی دھوم کے ساتھ
وصل کی رات ہے کیوں مرثیہ خوانی کریں ہم
سالم سلیم