کچھ تو ٹھہرے ہوئے دریا میں روانی کریں ہم
آؤ دنیا کی حقیقت کو کہانی کریں ہم
اپنے موجود میں ملتے ہی نہیں ہیں ہم لوگ
جو ہے معدوم اسے اپنی نشانی کریں ہم
پہلے اک یار بنائیں کوئی اس کے جیسا
اور پھر ایجاد کوئی دشمن جانی کریں ہم
جب نیا کام ہی کرنے کو نہیں ہے کوئی
بیٹھے بیٹھے یوں ہی اک چیز پرانی کریں ہم
ہجر کے دن تو ہوئے ختم بڑی دھوم کے ساتھ
وصل کی رات ہے کیوں مرثیہ خوانی کریں ہم
غزل
کچھ تو ٹھہرے ہوئے دریا میں روانی کریں ہم
سالم سلیم