زماں مکاں سے بھی کچھ ماورا بنانے میں
میں منہمک ہوں بہت خود کو لا بنانے میں
چراغ عشق بدن سے لگا تھا کچھ ایسا
میں بجھ کے رہ گیا اس کو ہوا بنانے میں
یہ دل کہ صحبت خوباں میں تھا خراب بہت
سو عمر لگ گئی اس کو ذرا بنانے میں
گھری ہے پیاس ہماری ہجوم آب میں اور
لگا ہے دشت کوئی راستا بنانے میں
مہک اٹھی ہے مرے چار سو زمین ہنر
میں کتنا خوش ہوں تجھے جا بہ جا بنانے میں
غزل
زماں مکاں سے بھی کچھ ماورا بنانے میں
سالم سلیم