EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

مے خانۂ ہستی میں ساقی ہم دونوں ہی مجرم ہیں شاید
خم تو نے بچا کے رکھے تھے پیمانے میں نے توڑے ہیں

سالک لکھنوی




منزل نہ ملی کشمکش اہل نظر میں
اس بھیڑ سے میں اپنی نظر لے کے چلا ہوں

سالک لکھنوی




مٹ چکے جو بھی تھے توبہ شکنی کے اسباب
اب نہ مے خانہ نہ پیمانہ نہ شیشہ نہ سبو

سالک لکھنوی




مٹ چکے جو بھی تھے توبہ شکنی کے اسباب
اب نہ مے خانہ نہ پیمانہ نہ شیشہ نہ سبو

سالک لکھنوی




ناخدا ڈوبنے والوں کی طرف مڑ کے نہ دیکھ
نہ کریں گے نہ کناروں کی تمنا کی ہے

سالک لکھنوی




نظر سے دیکھ تو ساقی اک آئینہ بنایا ہے
شکستہ شیشہ و ساغر کے ٹکڑے جوڑ کر ہم نے

سالک لکھنوی




نگاہ مہر کہاں کی وہ برہمی بھی گئی
میں دوستی کو جو رویا تو دشمنی بھی گئی

سالک لکھنوی