مے خانۂ ہستی میں ساقی ہم دونوں ہی مجرم ہیں شاید
خم تو نے بچا کے رکھے تھے پیمانے میں نے توڑے ہیں
سالک لکھنوی
منزل نہ ملی کشمکش اہل نظر میں
اس بھیڑ سے میں اپنی نظر لے کے چلا ہوں
سالک لکھنوی
مٹ چکے جو بھی تھے توبہ شکنی کے اسباب
اب نہ مے خانہ نہ پیمانہ نہ شیشہ نہ سبو
سالک لکھنوی
مٹ چکے جو بھی تھے توبہ شکنی کے اسباب
اب نہ مے خانہ نہ پیمانہ نہ شیشہ نہ سبو
سالک لکھنوی
ناخدا ڈوبنے والوں کی طرف مڑ کے نہ دیکھ
نہ کریں گے نہ کناروں کی تمنا کی ہے
سالک لکھنوی
نظر سے دیکھ تو ساقی اک آئینہ بنایا ہے
شکستہ شیشہ و ساغر کے ٹکڑے جوڑ کر ہم نے
سالک لکھنوی
نگاہ مہر کہاں کی وہ برہمی بھی گئی
میں دوستی کو جو رویا تو دشمنی بھی گئی
سالک لکھنوی