نگاہ مہر کہاں کی وہ برہمی بھی گئی
میں دوستی کو جو رویا تو دشمنی بھی گئی
سالک لکھنوی
نگاہ شوق سے لاکھوں بنا ڈالے ہیں در ہم نے
قفس میں بھی نہیں مانی شکست بال و پر ہم نے
سالک لکھنوی
ساحل پہ قید لاکھوں سفینوں کے واسطے
میری شکستہ ناؤ ہے طوفاں لیے ہوئے
سالک لکھنوی
ستارے کی طرح سینے میں دل ڈوبا کیا لیکن
شب غم کے اندھیرے سے نہیں مانگی سحر ہم نے
سالک لکھنوی
یہ بھی اک رات کٹ ہی جائے گی
صبح فردا کی منتظر ہے نگاہ
سالک لکھنوی
یونہی انسانوں کے شہروں میں ملا اپنا وجود
کسی ویرانے میں اک پھول کھلا ہو جیسے
سالک لکھنوی
یونہی انسانوں کے شہروں میں ملا اپنا وجود
کسی ویرانے میں اک پھول کھلا ہو جیسے
سالک لکھنوی