EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

نگاہ مہر کہاں کی وہ برہمی بھی گئی
میں دوستی کو جو رویا تو دشمنی بھی گئی

سالک لکھنوی




نگاہ شوق سے لاکھوں بنا ڈالے ہیں در ہم نے
قفس میں بھی نہیں مانی شکست بال و پر ہم نے

سالک لکھنوی




ساحل پہ قید لاکھوں سفینوں کے واسطے
میری شکستہ ناؤ ہے طوفاں لیے ہوئے

سالک لکھنوی




ستارے کی طرح سینے میں دل ڈوبا کیا لیکن
شب غم کے اندھیرے سے نہیں مانگی سحر ہم نے

سالک لکھنوی




یہ بھی اک رات کٹ ہی جائے گی
صبح فردا کی منتظر ہے نگاہ

سالک لکھنوی




یونہی انسانوں کے شہروں میں ملا اپنا وجود
کسی ویرانے میں اک پھول کھلا ہو جیسے

سالک لکھنوی




یونہی انسانوں کے شہروں میں ملا اپنا وجود
کسی ویرانے میں اک پھول کھلا ہو جیسے

سالک لکھنوی