مرے ٹھہراؤ کو کچھ اور بھی وسعت دی جائے
اب مجھے خود سے نکلنے کی اجازت دی جائے
موت سے مل لیں کسی گوشۂ تنہائی میں
زندگی سے جو کسی دن ہمیں فرصت دی جائے
بے خدوخال سا اک چہرا لیے پھرتا ہوں
چاہتا ہوں کہ مجھے شکل و شباہت دی جائے
بھرے بازار میں بیٹھا ہوں لیے جنس وجود
شرط یہ ہے کہ مری خاک کی قیمت دی جائے
بس کہ دنیا مری آنکھوں میں سما جائے گی
کوئی دن اور مرے خواب کو مہلت دی جائے
غزل
مرے ٹھہراؤ کو کچھ اور بھی وسعت دی جائے
سالم سلیم