ہر ایک سانس کے پیچھے کوئی بلا ہی نہ ہو
میں جی رہا ہوں تو جینا مری سزا ہی نہ ہو
جو ابتدا ہے کسی انتہا میں ضم تو نہیں
جو انتہا ہے کہیں وہ بھی ابتدا ہی نہ ہو
مری صدائیں مجھی میں پلٹ کے آتی ہیں
وہ میرے گنبد بے در میں گونجتا ہی نہ ہو
بجھا رکھے ہیں یہ کس نے سبھی چراغ ہوس
ذرا سا جھانک کے دیکھیں کہیں ہوا ہی نہ ہو
عجب نہیں کہ ہو اس آستاں پہ جم غفیر
اور اس کو میرے سوا کوئی دیکھتا ہی نہ ہو
وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے رو رو پڑے ہمارے لئے
سو دور دور تک اپنا اتا پتا ہی نہ ہو
غزل
ہر ایک سانس کے پیچھے کوئی بلا ہی نہ ہو
سالم سلیم