EN हिंदी
ہر ایک سانس کے پیچھے کوئی بلا ہی نہ ہو | شیح شیری
har ek sans ke pichhe koi bala hi na ho

غزل

ہر ایک سانس کے پیچھے کوئی بلا ہی نہ ہو

سالم سلیم

;

ہر ایک سانس کے پیچھے کوئی بلا ہی نہ ہو
میں جی رہا ہوں تو جینا مری سزا ہی نہ ہو

جو ابتدا ہے کسی انتہا میں ضم تو نہیں
جو انتہا ہے کہیں وہ بھی ابتدا ہی نہ ہو

مری صدائیں مجھی میں پلٹ کے آتی ہیں
وہ میرے گنبد بے در میں گونجتا ہی نہ ہو

بجھا رکھے ہیں یہ کس نے سبھی چراغ ہوس
ذرا سا جھانک کے دیکھیں کہیں ہوا ہی نہ ہو

عجب نہیں کہ ہو اس آستاں پہ جم غفیر
اور اس کو میرے سوا کوئی دیکھتا ہی نہ ہو

وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے رو رو پڑے ہمارے لئے
سو دور دور تک اپنا اتا پتا ہی نہ ہو