EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

سامان دل کو بے سر و سامانیاں ملیں
کچھ اور بھی جواب تھے میرے سوال کے

سجاد باقر رضوی




شہر کے آباد سناٹوں کی وحشت دیکھ کر
دل کو جانے کیا ہوا میں شام سے گھر آ گیا

سجاد باقر رضوی




ٹوٹ پڑتی تھیں گھٹائیں جن کی آنکھیں دیکھ کر
وہ بھری برسات میں ترسے ہیں پانی کے لیے

سجاد باقر رضوی




زلفیں ادھر کھلیں ادھر آنسو امنڈ پڑے
ہیں سب کے اپنے اپنے روابط گھٹا کے ساتھ

سجاد باقر رضوی




ہیں قہقہے کسی کے کسی کی ہیں سسکیاں
شامل رہا خوشی میں کسی بے بسی کا شور

سجاد شمسی




ہیں قہقہے کسی کے کسی کی ہیں سسکیاں
شامل رہا خوشی میں کسی بے بسی کا شور

سجاد شمسی




یہ کیسا حادثہ گزرا یہ کیسا سانحہ بیتا
نہ آنگن ہے نہ چھت باقی نہ ہیں دیوار و در باقی

سجاد شمسی