EN हिंदी
راہوں کے اونچ نیچ ذرا دیکھ بھال کے | شیح شیری
rahon ke unch-nich zara dekh-bhaal ke

غزل

راہوں کے اونچ نیچ ذرا دیکھ بھال کے

سجاد باقر رضوی

;

راہوں کے اونچ نیچ ذرا دیکھ بھال کے
ہاں رہرو مراد قدم رکھ سنبھال کے

فتنوں کو دیکھ اپنے قدم روک بیٹھ جا
راتیں یہ آفتوں کی ہیں یہ دن وبال کے

میں سرگراں تھا ہجر کی راتوں کے قرض سے
مایوس ہو کے لوٹ گئے دن وصال کے

کچھ یہ نہ تھا کہ میں نے نہ سمجھی بساط دہر
میں خود ہی کھیل ہار گیا دیکھ بھال کے

سامان دل کو بے سر و سامانیاں ملیں
کچھ اور بھی جواب تھے میرے سوال کے

لمحوں کی لے پہ گزری ہیں راتیں نشاط کی
کس دھن میں دن کٹیں گے یہ رنج و ملال کے

تخلیق ہے مری تری تخلیق سے الگ
میں بھی بناتا رہتا ہوں پیکر خیال کے

پیاسی زمین دل ہے پڑا قحط فصل شوق
ہاں اے ہوا کدھر گئے دن برشگال کے

باقرؔ یہ دانت بیچ زباں بند کیوں ہوئی
قائل تو آپ بھی تھے بہت قیل و قال کے