EN हिंदी
جرم اظہار تمنا آنکھ کے سر آ گیا | شیح شیری
jurm-e-izhaar-e-tamanna aankh ke sar aa gaya

غزل

جرم اظہار تمنا آنکھ کے سر آ گیا

سجاد باقر رضوی

;

جرم اظہار تمنا آنکھ کے سر آ گیا
چور جو دل میں چھپا تھا آج باہر آ گیا

میرے لفظوں میں حرارت میرے لہجے میں مٹھاس
جو کچھ ان آنکھوں میں تھا میرے لبوں پر آ گیا

جن کی تعبیروں میں تھی اک عمر کی وارفتگی
پھر نگاہوں میں انہیں خوابوں کا منظر آ گیا

شہر کے آباد سناٹوں کی وحشت دیکھ کر
دل کو جانے کیا ہوا میں شام سے گھر آ گیا

پہلے چادر کی ہوس میں پاؤں پھیلائے بہت
اب یہ دکھ ہے پاؤں کیوں چادر سے باہر آ گیا

ہم دوانوں کے لیے تھیں وسعتیں ہی وسعتیں
ختم جب صحرا ہوا آگے سمندر آ گیا

تم نے باقرؔ دل کا دروازہ کھلا رکھا تھا کیوں
جس کو آنا تھا وہ آخر درد بن کر آ گیا