جرم اظہار تمنا آنکھ کے سر آ گیا 
چور جو دل میں چھپا تھا آج باہر آ گیا 
میرے لفظوں میں حرارت میرے لہجے میں مٹھاس 
جو کچھ ان آنکھوں میں تھا میرے لبوں پر آ گیا 
جن کی تعبیروں میں تھی اک عمر کی وارفتگی 
پھر نگاہوں میں انہیں خوابوں کا منظر آ گیا 
شہر کے آباد سناٹوں کی وحشت دیکھ کر 
دل کو جانے کیا ہوا میں شام سے گھر آ گیا 
پہلے چادر کی ہوس میں پاؤں پھیلائے بہت 
اب یہ دکھ ہے پاؤں کیوں چادر سے باہر آ گیا 
ہم دوانوں کے لیے تھیں وسعتیں ہی وسعتیں 
ختم جب صحرا ہوا آگے سمندر آ گیا 
تم نے باقرؔ دل کا دروازہ کھلا رکھا تھا کیوں 
جس کو آنا تھا وہ آخر درد بن کر آ گیا
        غزل
جرم اظہار تمنا آنکھ کے سر آ گیا
سجاد باقر رضوی

