میں ہم نفساں جسم ہوں وہ جاں کی طرح تھا
میں درد ہوں وہ درد کے عنواں کی طرح تھا
سجاد باقر رضوی
میں سرگراں تھا ہجر کی راتوں کے قرض سے
مایوس ہو کے لوٹ گئے دن وصال کے
سجاد باقر رضوی
من دھن سب قربان کیا اب سر کا سودا باقی ہے
ہم تو بکے تھے اونے پونے پیار کی قیمت کم نہ ہوئی
سجاد باقر رضوی
پہلے چادر کی ہوس میں پاؤں پھیلائے بہت
اب یہ دکھ ہے پاؤں کیوں چادر سے باہر آ گیا
سجاد باقر رضوی
پھر ذہن کی گلیوں میں صدا گونجی ہے کوئی
پھر سوچ رہے ہیں کہیں آواز سنی ہے
سجاد باقر رضوی
پھر ذہن کی گلیوں میں صدا گونجی ہے کوئی
پھر سوچ رہے ہیں کہیں آواز سنی ہے
سجاد باقر رضوی
پھرتی تھی لے کے شورش دل کو بہ کو ہمیں
منزل ملی تو شورش دل کا پتا نہ تھا
سجاد باقر رضوی