EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

میں ہم نفساں جسم ہوں وہ جاں کی طرح تھا
میں درد ہوں وہ درد کے عنواں کی طرح تھا

سجاد باقر رضوی




میں سرگراں تھا ہجر کی راتوں کے قرض سے
مایوس ہو کے لوٹ گئے دن وصال کے

سجاد باقر رضوی




من دھن سب قربان کیا اب سر کا سودا باقی ہے
ہم تو بکے تھے اونے پونے پیار کی قیمت کم نہ ہوئی

سجاد باقر رضوی




پہلے چادر کی ہوس میں پاؤں پھیلائے بہت
اب یہ دکھ ہے پاؤں کیوں چادر سے باہر آ گیا

سجاد باقر رضوی




پھر ذہن کی گلیوں میں صدا گونجی ہے کوئی
پھر سوچ رہے ہیں کہیں آواز سنی ہے

سجاد باقر رضوی




پھر ذہن کی گلیوں میں صدا گونجی ہے کوئی
پھر سوچ رہے ہیں کہیں آواز سنی ہے

سجاد باقر رضوی




پھرتی تھی لے کے شورش دل کو بہ کو ہمیں
منزل ملی تو شورش دل کا پتا نہ تھا

سجاد باقر رضوی