گزرا ہے ناگوار انہیں بے کسی کا شور
کانوں میں جن کے گونج رہا ہے خوشی کا شور
سنتا نہیں لحد میں مجھے خامشی کا شور
تحت الشعور میں ہے ابھی زندگی کا شور
مر مر کے میں نے اپنے فریضے کئے ادا
ہے میرے دم سے آج تری برتری کا شور
زنجیر پا سے لاج غلامی کی رہ گئی
ہر گام پر اٹھا ہے مری بندگی کا شور
ہیں قہقہے کسی کے کسی کی ہیں سسکیاں
شامل رہا خوشی میں کسی بے بسی کا شور
مانا ہر انجمن کا ترانہ ہے دل نواز
شمسیؔ ہمیں عزیز ہے اپنی گلی کا شور
غزل
گزرا ہے ناگوار انہیں بے کسی کا شور
سجاد شمسی