دعاؤں میں اثر باقی نہ آہوں میں اثر باقی
ہے کچھ لے دے کے گر باقی تو ہے اک چشم تر باقی
یہ کیسا حادثہ گزرا یہ کیسا سانحہ بیتا
نہ آنگن ہے نہ چھت باقی نہ ہیں دیوار و در باقی
چمن والوں کی بد ذوقی پہ کلیاں جان کھوتی ہیں
نہ ہیں اہل نظر باقی نہ کوئی دیدہ ور باقی
پتا کیا پوچھتے ہیں آپ ہم صحرا نوردوں سے
نہ اپنا شہر ہے باقی محلہ ہے نہ گھر باقی
فضائیں چپ ہوائیں چپ صدائیں چپ ندائیں چپ
نوائے نیم شب باقی نہ ہے بانگ سحر باقی
خدا جانے نظام مے کدہ کو کیا ہوا شمسیؔ
نہ وہ حسن عطا باقی نہ وہ لطف نظر باقی

غزل
دعاؤں میں اثر باقی نہ آہوں میں اثر باقی
سجاد شمسی