لفظ جب کوئی نہ ہاتھ آیا معانی کے لیے
کیا مزے ہم نے زبان بے زبانی کے لیے
یہ دوراہا ہے چلو تم رنگ و بو کی کھوج میں
ہم چلے صحرائے دل کی باغبانی کے لیے
زندگی اپنی تھی گویا لمحۂ فرقت کا طول
کچھ مزے ہم نے بھی عمر جاودانی کے لیے
میں بھلا ٹھنڈی ہوا سے کیا الجھتا چپ رہا
پھول کی خوش بو بہت تھی سرگرانی کے لیے
ٹوٹ پڑتی تھیں گھٹائیں جن کی آنکھیں دیکھ کر
وہ بھری برسات میں ترسے ہیں پانی کے لیے
راکھ ارمانوں کی گیلی لکڑیاں احساس کی
ہم کو یہ ساماں ملے شعلہ بیانی کے لیے
شمع ہو فانوس سے باہر تو گل ہو جائے گی
بندش الفاظ مت توڑو معانی کے لیے
دو کنارے ہوں تو سیل زندگی دریا بنے
ایک حد لازم ہے پانی کی روانی کے لیے
آج کیوں چپ چپ ہو باقرؔ تم کبھی مشہور تھے
دوستوں یاروں میں اپنی خوش بیانی کے لیے
غزل
لفظ جب کوئی نہ ہاتھ آیا معانی کے لیے
سجاد باقر رضوی