خواہش میں سکوں کی وہی شورش طلبی ہے
یعنی مجھے خود میری طلب ڈھونڈ رہی ہے
دل رکھتے ہیں آئینۂ دل ڈھونڈ رہے ہیں
یہ اس کی طلب ہے کہ وہی خود طلبی ہے
تصویر میں آنکھیں ہیں کہ آنکھوں میں ہے تصویر
اوجھل ہو نگاہوں سے تو بس دل پہ بنی ہے
دن بھر تو پھرے شہر میں ہم خاک اڑاتے
اب رات ہوئی چاند ستاروں سے ٹھنی ہے
ہیں اس کی طرح سرد یہ بجلی کے ستوں بھی
روشن ہیں مگر آگ کہاں دل میں لگی ہے
پھر ذہن کی گلیوں میں صدا گونجی ہے کوئی
پھر سوچ رہے ہیں کہیں آواز سنی ہے
پھر روح کے کاغذ پہ کھنچی ہے کوئی تصویر
ہے وہم کہ یہ شکل کہیں دیکھی ہوئی ہے
کترائے تو ہم لاکھ رہ وحشت دل سے
کانوں میں سلاسل کی صدا گونج رہی ہے
باقرؔ مجھے فرصت نہیں شوریدہ سری کی
کاندھوں پہ مرے سر ہے کہ اک درد سری ہے
غزل
خواہش میں سکوں کی وہی شورش طلبی ہے
سجاد باقر رضوی