EN हिंदी
میسر خود نگہ داری کی آسائش نہیں رہتی | شیح شیری
mayassar KHud nigah-dari ki aasaish nahin rahti

غزل

میسر خود نگہ داری کی آسائش نہیں رہتی

صائمہ اسما

;

میسر خود نگہ داری کی آسائش نہیں رہتی
محبت میں تو پیش و پس کی گنجائش نہیں رہتی

اندھیرے اور بھی کچھ تیز رفتاری سے بڑھتے ہیں
دیا کوئی جلانے کی جہاں کوشش نہیں رہتی

یہ دل تو کس طرف جانے بہا کر لے گیا ہوتا
نگاہوں میں اگر وہ ساعت پرسش نہیں رہتی

مہ و انجم سے لوٹ آئیں اجارہ دار دنیا کے
جہاں یہ پاؤں رکھتے ہیں وہاں تابش نہیں رہتی

بہت سے پھول لہجے خار ہوتے ہم نے دیکھے ہیں
کسی شیریں نوا کی دل کو اب خواہش نہیں رہتی

مثلث کا خط ثالث مجھے مل کر نہیں دیتا
کبھی قسمت سے وہ رک جائے تو بارش نہیں رہتی