میسر خود نگہ داری کی آسائش نہیں رہتی
محبت میں تو پیش و پس کی گنجائش نہیں رہتی
اندھیرے اور بھی کچھ تیز رفتاری سے بڑھتے ہیں
دیا کوئی جلانے کی جہاں کوشش نہیں رہتی
یہ دل تو کس طرف جانے بہا کر لے گیا ہوتا
نگاہوں میں اگر وہ ساعت پرسش نہیں رہتی
مہ و انجم سے لوٹ آئیں اجارہ دار دنیا کے
جہاں یہ پاؤں رکھتے ہیں وہاں تابش نہیں رہتی
بہت سے پھول لہجے خار ہوتے ہم نے دیکھے ہیں
کسی شیریں نوا کی دل کو اب خواہش نہیں رہتی
مثلث کا خط ثالث مجھے مل کر نہیں دیتا
کبھی قسمت سے وہ رک جائے تو بارش نہیں رہتی
غزل
میسر خود نگہ داری کی آسائش نہیں رہتی
صائمہ اسما