EN हिंदी
زندگی خواہشوں کا مقتل ہے | شیح شیری
zindagi KHwahishon ka maqtal hai

غزل

زندگی خواہشوں کا مقتل ہے

ساجد اثر

;

زندگی خواہشوں کا مقتل ہے
دل کی دنیا میں ایک ہلچل ہے

ہوش کی حد میں رہ نہیں سکتا
برتری کا مریض پاگل ہے

خیر خواہی کی گھاس کے نیچے
مصلحت کی غلیظ دلدل ہے

اور اک چوٹ دیجیے مجھ کو!
میری تکلیف نامکمل ہے

اے اثرؔ! خیریت کا دروازہ
سالہا سال سے مقفل ہے